میرا قائد ایسا ہی ہے

تنہائی کے جنگل میں اترنے نہیں دے گا
وہ مجھ کو کبھی کرب سے مرنے نہیں دے گا

پیوستہ وہ رکھے گا مجھے اپنے شجر سے
دنیا کی ہواؤں میں بکھرنے نہیں دے گا

پلکوں میں پرو دے گا تمنا کے ستارے
آنکھوں سے اندھیروں کو گزرنے نہیں دے گا

وہ دل میں اتر آئے گا خود بن کے تسلی
وحشت کے بیاباں سے وہ ڈرنے نہیں دے گا

سر سبز وہ رکھے گا میری روح کے موسم
آہٹ بھی خزاؤں کی ابھرنے نہیں دے گا

وہ اپنی توجہ سے کسی رنج و الم کو
پاؤں میری دہلیز پہ دھرنے نہیں دے گا

میں جب بھی پکاروں چلا آئے گا وہ ہمدم
ہونٹوں سے کبھی ’’آہ‘‘ بھی بھرنے نہیں دے گا

(ویمن لیگ۔ سیالکوٹ)

تبصرہ